اشاعتیں

مئی, 2020 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

Mohd. Qamar Khan - A Brief Introduction

تصویر
I feel pleasure in introducing Jnaab Mohd Qamar Khan who besides an intense Urdu lover is a well-recognised teacher of Urdu too. He hardly needs any introduction. He is Honorary Incharge of Urdu Coaching Centre at UP Urdu Academy, Lucknow which runs a 6-months' course free of cost for people who want to learn to read and write Urdu. Mr Khan has the distinction of having been awarded at various platforms like Human Welfare Society, Lucknow for  devising innovative approach for teaching Urdu. His students includes people from all age groups starting from teenagers to septugenarians. Interestingly, none of his students have any knowledge of Urdu language before enrolling for the course, however, after attending his classes, they start trying their hand in Creative writing in Urdu. And his students include- doctors, university teachers, senior bank officers, police officers, judicial officials etc, to cut the list short! He takes great pains in teaching Urdu language and ever si...

بیتے وقت کے جھرونکھے سے

تصویر
ساہو سنیما ہال       حضرت گنج میں 1934 میں پرنس ٹھیٹر کے لئے چھوڑے گۓ راستہ کے اوپر ڈالی  گئی لمبی بیم /سلیپ کے اوپر  ایک سنیما ہال بنوایا گیا - اس ہال کا پہلا نام "پلازا" تھا اور یہاں سب سے پہلے انگریزی فلم "سائن آف دی کراس " رلیز ہوئی تھی   اس وقت " پلازا "سہراب مودی کی ملکیت تھا مگر بعد میں یہ ہال انہوں نے فروخت کر دیا - پلازا کے نۓ مالک نے اس ہال کا نیا نام "ریگل " رکھا - یہاں انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں  - بعد میں "فلمستان کمپنی کی ہندی فلموں نے اس ہال میں کافی دھوم مچائی - فلم "انارکلی" کی نمائش یہاں بہت کامیاب رہی - اس فلم میں (لکھنؤ سے ممبئی گئ کرشنا سرین) فلمی نام بینا رائے کی اداکاری کو کافی سراہا گیا   فلمستان کمپنی نے جب یہ ہال 1950 میں خرید لیا تو اسے نئی سج دھج کے بعد پھر "فلمستان ٹاکیز" کے نام سے شروع کیا گیا   "گزرے دورکے لکھنؤکے حضرت گنج میں واقع "فلمستان ٹاکیز  (فوٹو - گوگل کی جانب سے)  جہاں تک اس ہال کی سج دھج کا سوال ہے یہا...

بیتے وقت کے جھرونکھے سے - پرنس تھیٹر

تصویر
 پرنس  تھیٹر   تقریباً ایک سو پندرہ برس قبل "پرنس آف ویلس" اپنی اہلیہ کے ہمراہ لکھنؤ تشریف لاۓ  تھے، اس برس ١٩٠٥ کا کرسمس انہوں نے لکھنؤ میں ہی منایا - انکے استقبال اور عزت افزائی کے ہی تحت یہاں پرنس آف ولیس میوزیم "زو" کی تعمیر کروائی گئ اور اسکا افتتاح بھی انہوں نے کیا تھا- انکے اس دورے کو یادگار بنانے اور ان ے  احترام میں لکھنؤ کے حضرت گنج علاقه میں "پرنس" تھیٹر تعمیر کروایا گیا -  اس تھیٹر کی دونوں طرف کی دیواروں پر"دوڑتے ہوئے ہرنوں" کی خوبصورت تصاویر/پینٹنگس بنی ہوئی تھیں جو اجتماعی اعتبار سے تھیٹر کو آرٹسٹک لوک دینے میں کامیاب تھیں - اس تھیٹر کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کی چھت ٹین کی  بجاے عمدہ قسم کی لکڑی سے بنی ہوئی تھی -  تصویر گواہ ہے کہ قدیم دور میں یہ سنیما ہال کتنی اہمیت رکھتا تھا  پرنس تھیٹر" کافی عرصہ تک بطور تھیٹر ہی استعمال کیا جاتا رہا - اسکے ساتھ ہی یہاں "بار" بھی تھا اور  بلیرڈ کھیلے جانے کے واسطے کلب بھی ہوا کرتا تھا - تفریح کے مد نظر یہاں پر ایک "ڈانس ہاؤس" ایسا بھ...

بیتے وقت کے جھرونکھے سے 4. ناولٹی سنیما

تصویر
ناولٹی سنیما  کیا آپ کو معلوم ہے کہ 1947 میں لکھنؤ کے لال باغ چوراہے پر پرتھوی راج بھارگو نے "ناولٹی " سنیما ہال کی تعمیر شروع کرائی اور 1948میں یہ سنیما ہال بن کر مکمّل ہوا - سب سےپہلے اس ہال میں "انمول گھڑی "فلم رلیز ہوئی - اس فلم میں ثریا اور نورجہاں نے کام کیا تھا اور اس فلم میں نوشاد کی موسیقی پر مبنی گانے کافی مشہور ہوئے -  بعد میں یہاں "جگنو" فلم لگی، اس فلم میں نورجہاں نے پہلی اور آخری مرتبہ دلیپ کمار کے ساتھ کام کیا - محمد رفیع کو بھی آخری مرتبہ نورجہاں کے ساتھ اس فلم کے نغمہ گانے کا موقع ملا - فروز نظامی کی موسیقی میں ترتیب دیا ہوا گانا "یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے " ان دنوں بہت مقبول ہوا اور آج بھی ہے -  ناولٹی سنیما میں ہی وی شانتا رام کی فلم "دہیز"، "صبح کا تارا "، اور "جھنک جھنک پائل باجے" کی نمائش ہوئی - ویسے تو راج کپور اور ریحانہ کی فلم "سنہرا دن "، دلیپ کمار اور مینا کماری کی فلم "آزاد"، ثریا اور نمی کی فلم "شمع" ، دلیپ کمار اور ویجنتی م...

بیتے وقت کے جھرونکھے سے

تصویر
تحریر گو - محمد قمر خان   ٣. بسنت سنیما  کیا آپ کو معلوم ہے کہ حصول آزادی کے دوران 1947 میں لکھنؤ کے لال باغ علاقہ میں  دو سنیما ہال وجود میں آے - ایک تھا"بسنت" جبکہ دوسرا تھا"ناولٹی" - لال باغ چوراہے سے مے فیئر کی طرف جانے والی سڑک پر وا قع بسنت سنیما میں پہلی بار "یعقوب اور سلوچنا" کی فلم "دوسری شادی" لگی - یہ ایک سماجی فلم تھی - بسنت پہلا -سنیما ہال تھا جہاں کہ "مے فیئر "  کی طرح اپنے آپ کھلنے والا رنگین پردہ لگوایا گیا تھا گزرے دور میں لکھنؤ کے سارے سنیما ہالوں میں لیڈیز باکس ہوتا تھا  جس کے سامنے اور سائڈ میں دونوں طرف سے پردہ پڑا رہتا تھا - سامنے والا پردہ فلم شروع ہونے پر اٹھ جاتا تھا اور انٹرول میں اس پردہ کو پھرگرا دیا جاتا تھا - مشہور فلم اسٹار بینا رائے کا اصلی نام کرشنا سرین تھا ، وہ آی ٹی کالج لکھنؤ کی طالبہ تھیں - بینا رائے کی فلمیں "تلاش" "عورت" شگوفہ"، "گول کنڈہ کا قیدی" بسنت سنیما میں ہی رلیز ہوئی تھیں- گیواکلر فلم "گول کنڈہ کا قیدی" پریم ناتھ نے بنائ...

بیتے وقت کے جھرونکھے سے

تصویر
  ٢. مے فیئر سنیما  گزرے دور میں سنیما ہال/تھیٹر کو عام فہم زبان میں تماشہ گھر کہا جاتا تھا ، چنانچہ تفریح کے مقصد سے حضرت گنج کے "کیتھڈرل چرچ"کے سامنے ١٩٣٩ میں "مے فیئر سینما " وجود میں آیا - آزادی سے قبل حضرت گنج کی زیاداتر جایدادیں راجہ جہانگیر آباد اور یا پھر راجہ محمود آباد کی ملکیت تھیں - راجہ صاحب جہانگیرا آباد کے گود لئے ہوئے بھتیجے بےبی نے انکے انتقال کے بعد مالی  ضرورت کے تحت یہ جایداد پیسار کے زمیندار ایمادالدین  اشرف صاحب کو فروخت کر دی ، جبکہ اس جائداد کا بسنت سنیما والا منسلک حصّہ تھڈانی کے پاس رہا اور بسنت سنیما والے حصّہ کے علاوہ "مے فیئر "  کی طرف کے حصّہ پر بھی تھڈانی قابض تھے - یہ قبضہ  لیس قانون کے تحت تھا ، ہے اور آیندہ 2027 تک قایم رہیگا - اس قبضہ کے عوض اشرف فیملی کو صرف 500روپئے  ماہانہ کرایہ حاصل ہوتا ہے - بہرحال 'مے فیئر ' سنیما کے وجود میں آنے کے بعد یہاں انگریزی فلمیں چلنا شروع ہوئیں - اس سینما حال میں سب سے پہلے لوریل اینڈ ہارڈی کی "نتھنگ بٹ ٹربل ' لگی - شروعات سے مے ...

بیتے وقت کے جھرونکھے سے - 1

تصویر
MOHAMMAD QAMAR KHAN کیا آپ کو معلوم ہے کہ اسسی برس قبل اور اسکے بعد بھی کافی عرصہ تک لکھنؤ شہر میں سنیما ہال جاکر فلم دیکھنا ہی تفریح کا واحد ذریعہ ہوتا تھا - اور اس تفریح کے لئے مختلف سنیما ہالوں میں روزنہ صرف دو شو ہی ہوا کرتے تھے- شام کا شو فرسٹ شو کہلاتا تھا اور رات والے شو  کو  سیکنڈ شو یا نائٹ شو کہا جاتا تھا - انگریزوں کے زمانہ میں سنیچر  کو ہاف ڈے اور اتوار کے دن پوری چھٹی ہونے کے سبب ان دو ٢ دنوں میں سہ پہر کے وقت ایک میٹنی شو بھی مستقل طور پر شروع ہو گیا - بعد میں لکھنؤ کی بڑتی ہوئی آبادی کے مدنظر دن میں ١٢ بجے والا "نون شو" بڑھانا پڑا. اتنا ہی نہیں لکھنؤ کے "مے فیئر " اور "اوڈین "سنیماصبح کے وقت انگریزی فلموں کے "مورننگ شو" بھی اکثر چلاتے تھے - کسی نئی فلم کے لگنے پر  اسکی رلیز کے ایک روز قبل رات ١٢ بجے کے بعد اسکا " ٹرائل شو" بھی ہوا کرتا تھا جسمیں سنیما ہال کا اسٹاف اور مینجمنٹ سے جڑے لوگ فلم کو پوری طرح دیکھتے تھے - شوراتری کی رات کو ایک ٹکٹ میں دو فلمیں دکھاۓ جانے کا بھی چلن ہوا کرتا تھا جسکے تحت صرف "دھارمک...

چل کہیں دور نکل جایئں " رشی کپور اپنے آخری سفر پر روانہ - ایک یاد، ایک خراج عقیدت

تصویر
کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس نغمہ کے بولوں کی ادایگی کرنے کے بعد اتنی جلد وہ ہم سب سے اتنا دور چلے جاینگے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا - اداکاری کی دنیا کے پہلے "ٹین ایج "سپر اسٹار رشی کپور نے ممبئی کے ایچ این رلائنس اسپتال میں 30 اپریل صبح   8.45پر زندگی کی آخری سانس لی - وہ  67سال کی عمر تک لیو کیمیا سے جنگ لڑتے رہے - رشی کپور مشہور ایکٹر پرتھوی راج کپور کے پوتے اور ڈائریکٹر -ایکٹر راج کپور کے بیٹے تھے - انکا نک نیم چنٹو تھا - انکی پیدائش ستمبر 1952کو ممبئی میں ہوئی تھی - گزستہ ٢٣ اپریل کو گھر پر ہی انکی طبیعت بگڑی اور انہیں رلائنس اسپتال میں بھرتی کروایا گیا - ٣٠ اپریل کی صبح تک زیر علاج رہے، مگر پونے نو بجے وہ لکمہ عجل بن گئے-  اداکاری ورثہ میں اپنے دادا اور والد سے انہیں حاصل ہوئی تھی - چنانچہ 1955 میں تین سال کی عمر میں فلم "شری 420"کے ایک گانے میں پہلی مرتبہ انہیں بطور چائلڈ آرٹسٹ پردہ پر دیکھا گیا - بعد میں فلم "میرا نام جوکر"میں راج کپور کےکردار کے ینگ ورزن میں وہ نظر آے - فلم فلاپ ہو جانے کے باوجود انکے کام کو کافی سراہا گیا - اور رشی ک...