بیتے وقت کے جھرونکھے سے


  ٢. مے فیئر سنیما 



گزرے دور میں سنیما ہال/تھیٹر کو عام فہم زبان میں تماشہ گھر کہا جاتا تھا ، چنانچہ تفریح کے مقصد سے حضرت گنج کے "کیتھڈرل چرچ"کے سامنے ١٩٣٩ میں "مے فیئر سینما " وجود میں آیا - آزادی سے قبل حضرت گنج کی زیاداتر جایدادیں راجہ جہانگیر آباد اور یا پھر راجہ محمود آباد کی ملکیت تھیں -


راجہ صاحب جہانگیرا آباد کے گود لئے ہوئے بھتیجے بےبی نے انکے انتقال کے بعد مالی  ضرورت کے تحت یہ جایداد پیسار کے زمیندار ایمادالدین  اشرف صاحب کو فروخت کر دی ، جبکہ اس جائداد کا بسنت سنیما والا منسلک حصّہ تھڈانی کے پاس رہا اور بسنت سنیما والے حصّہ کے علاوہ "مے فیئر "  کی طرف کے حصّہ پر بھی تھڈانی قابض تھے - یہ قبضہ  لیس قانون کے تحت تھا ، ہے اور آیندہ 2027 تک قایم رہیگا - اس قبضہ کے عوض اشرف فیملی کو صرف 500روپئے  ماہانہ کرایہ حاصل ہوتا ہے -

بہرحال 'مے فیئر ' سنیما کے وجود میں آنے کے بعد یہاں انگریزی فلمیں چلنا شروع ہوئیں - اس سینما حال میں سب سے پہلے لوریل اینڈ ہارڈی کی "نتھنگ بٹ ٹربل ' لگی - شروعات سے مے فیئر قدرتی آبوہوا، انسانی سکوں و اطمینان کے لئے مشهورومقبول رہا - یہ سنیما لکھنؤ کے سوبر عوام اور اسٹینڈرڈ پبلک کی پہلی پسند ہوا کرتا تھا - اس ہال کو 'ٹین کمانڈمنٹس '، 'بنہر  ' کلیوپیٹرا ' 'سالومن ' جیسی انگریزی فلموں کی کامیابی کے ساتھ نمائش کا فخر حاصل ہے - ساتھ ہی دنیا کی پہلی 'تھری ڈی ' فلم 'ہاؤس آف ویکس ' کی نمائش بھی اسی ہال میں ہوئی - ہندوستان کی پہلی ٹیکنی کلر اور تاریخی فلم 'جھانسی کی رانی ' اس ہال میں دکھائی گئی جسمیں سہراب مودی اور مہتاب نے کام کیا تھا -

 مے فیئر میں اکثر کلچرل پروگراموں کا بھی اہتمام ہوتا تھا- پرتھوی تھیٹر کے مشہور ڈراموں میں سے "پٹھان"، 'آہوتی' غدار' وغیرہ اس ہال میں ہی اسٹیج کئے گئے اور سبھی کافی مقبول ہوئے - ان ڈراموں کی پیشکش کے بعد پرتھوی راج کپور کو بذات خود 'مے فیئر ' ہال کی لابی میں دیکھنے والوں کا استقبال کرتے  اور انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا - اودے شنکر کا 'ڈانس ڈرامہ' اور برجو مہاراج کا کتھک 'شام اودھ' پاروتی منگل ' وغیرہ کی پیشکش بھی اس ہال میں ہی عمل میں آی -

مے فیئر سنیما ہال سے منسلک 'کوالٹی ریسٹرینٹ 'ہوا کرتا تھا جہاں کی آئس کریم اور پیسٹری لکھنؤ اور قرب جوار تک  بہت مشہور ہوا کرتی تھی - اسکے علاوہ یہیں پر بیلیرڈ بھی ایک کلب میں کھیلا  جاتا تھا - بیلیرڈ کھیل کے  آل انڈیا ٹورنا منٹ اسی کلب میں چلتے تھے. اس کلب کا کرایہ بھی اشرف فیملی کو ہی ملا کرتا تھا -

Mohd. Qamar Khan 

بعد میں اس ہال میں  ہندی کی چنندہ فلمیں دکھائی جاتی رہیں جسمیں "بادبان"، "بندش" "بندھن" "سویرا " "سہارا " "دوستی " ندیا کے پار " "پاکیزہ "، عاشقی " نکاح " وغیرہ میل کا پتھر ثابت ہوئیں ، مگر پھر دور یہ آیا کہ تفریح ہی مختلف ذرائع ایجاد ہو جانے پر عوام فرصت کے مطابق اپنے گھروں کے اندر ہی فلمیں دیکھنے لگے جسکے سبب مے فیئر سنیما ہال کے نام سے جانا جانے والا یہ تماشہ گھر گزشتہ  ١٠ برس سے زیادہ عرصہ سے بند ہے !

محمد قمر خان 
تحریرگو

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کشوری کونیکٹ اردو ورکشاپ जोशोख़रोश से चल रही है किश्वरी कनेक्ट उर्दू वर्कशाप

Mohd. Qamar Khan - A Brief Introduction