بیتے وقت کے جھرونکھے سے - پرنس تھیٹر
پرنس تھیٹر
تقریباً ایک سو پندرہ برس قبل "پرنس آف ویلس" اپنی اہلیہ کے ہمراہ لکھنؤ تشریف لاۓ تھے، اس برس ١٩٠٥ کا کرسمس انہوں نے لکھنؤ میں ہی منایا - انکے استقبال اور عزت افزائی کے ہی تحت یہاں پرنس آف ولیس میوزیم "زو" کی تعمیر کروائی گئ اور اسکا افتتاح بھی انہوں نے کیا تھا- انکے اس دورے کو یادگار بنانے اور ان ے احترام میں لکھنؤ کے حضرت گنج علاقه میں "پرنس" تھیٹر تعمیر کروایا گیا -
اس تھیٹر کی دونوں طرف کی دیواروں پر"دوڑتے ہوئے ہرنوں" کی خوبصورت تصاویر/پینٹنگس بنی ہوئی تھیں جو اجتماعی اعتبار سے تھیٹر کو آرٹسٹک لوک دینے میں کامیاب تھیں - اس تھیٹر کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کی چھت ٹین کی بجاے عمدہ قسم کی لکڑی سے بنی ہوئی تھی -
تصویر گواہ ہے کہ قدیم دور میں یہ سنیما ہال کتنی اہمیت رکھتا تھا |
پرنس تھیٹر" کافی عرصہ تک بطور تھیٹر ہی استعمال کیا جاتا رہا - اسکے ساتھ ہی یہاں "بار" بھی تھا اور بلیرڈ کھیلے جانے کے واسطے کلب بھی ہوا کرتا تھا - تفریح کے مد نظر یہاں پر ایک "ڈانس ہاؤس" ایسا بھی تھا جہاں کا "ڈانسنگ فلور" کافی مشہور تھا - بس یوں سمجھ لیجئے کہ اس قدیم دور میں نوابوں اور تمام رئیس حضرات کی تفریح اور عیش کا کل سامان یہاں مہیا ہوا کرتا تھا - اس سلسلہ میں پرنس تھیٹر سے سٹا ہوا کرشنا ریسٹورنٹ ہوا کرتا تھا جہاں عمدہ قسم کے ناشتہ کے علاوہ لذیذ لنچ اور ڈنر کا بھی انتظام رہتا تھا -
پرنس میں جوڑوں کی آزادانہ گفتگو کا خیال رکھتے ہوئے باکس بنے ہوتے تھے - پردے کا چلن ختم ہونے کے بعد یہ انتظام بھی جاری نہ رہ سکا-
کامنی کوشل کی مشہور فلمیں "نمونہ" اور "نیچا نگر " اس ہال میں ہی رلیز ہوئی تھیں - دلیپ کمار اور کامنی کوشل کی مشہور ومقبول فلمیں "آرزو"، "ندیا کے پار "، "شبنم"، "شہید " کی نمائش یہیں پر ہوئی - اس رومانٹک جوڑی کے لۓ آرزو انکی آخری فلم بن گئ کیونکہ کامنی کوشل کے شوہر نے دلیپ کمار کے ساتھ کامنی کوشل کے کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی - "انوپما"، "برہمچاری " "آرادھنا" اس ہال میں دکھائی جانے والی مشہور فلمیں ہیں - راجیش کھنہ کو "آرادھنا" سے انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی - لکھنؤ کے اس ہال میں اس فلم نے سلور جبلی منائی -
وی شانتارام کی فلم "جل بن مچھلی نرتیہ بن بجلی" اس ہال میں لگنے والی آخری فلم تھی - کافی عرصہ ہوا یہ تماشہ گھر توڑدیا گیا اور اب یہاں نوتعمیر شدہ "پرنس مارکیٹ" قائم ہے -
تحریر گو - محمد قمر خان
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں